«وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ: اور جب پروردگار نے فرشتوں سے کہا: «میں زمین پر جانشین مقرر کرونگا»، [فرشتوں] نے کہا: «کیا اس کو لارہے ہو جو فساد کرے گا، بہت سے خون گریں گے؟ جب کہ ہم تیری ثنا، [تم کو] و تقدس کرتے ہیں.» فرمایا: «میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے» (بقره، 30).
آیت ۳۰ سوره بقره روئے زمین پر خدا کی خلافت کا اور فرشتوں کے اعتراض نما سوال کے جواب کو بیان کرتی ہے اور یہ ان آیات کا آغاز ہے جنمیں انسان کی خلقت، خصوصیات، صلاحتیں، بیان حقیقت اور انسان کی تنزل کو بیان کیا گیا ہے۔
آیت کے اختتام پر رب العزت فرماتا ہے: «میں وہ چیز جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے». وہ کیا چیز ہے جو خدا جانتا ہے اور فرشتے اس سے لاعلم ہیں؟ مفسرین کے مطابق فرشتے کو کچھ پہلے سے موجود موجودات کا علم تھے جو فساد کرتے تھے اور «مجمع البیان» تفسیر ابن عباس و ابن مسعود سے بیان ہے کہ که فرشتے جانتے تھے کہ حضرت آدم(ع) گناہ کا مرتکب نہیں ہوگا، مگر چونکہ خدا نے کہا تھا کہ انکی بعض اولاد فساد کریں گے تو فرشتوں نے اعتراض کیا تھا. علامه طباطبایی فرماتے ہیں کہ فرشتے اس مخلوق کی زمینی ہونے اور انکی ترکیب جو غضب و شہوت کی بناء پر ہے اس حوالے سے اعتراض کررہے تھے۔
مگر جو فرشتے نہیں جانتے تھے، انسان کے کمال کی انتہا ہے جس بنا پر وہ خلیفہ خدا بنتا ہے جو اس دنیا کے راستے سے گزر کر خلیفہ بنتا ہے: «الدنیا مزرعة الاخرة».
خدا کے اولیاء اس دنیا میں آن سے قبل اعلی مراتب کے حامل تھے اور اس عالم میں بھی اس نسبت سے انہوں نے سخت ترین مشکلات و مصائب کا استقامت سے مقابل کیا اور ان اعلی مراتب کو محظوظ رکھا اور ثابت کیا۔/