اسلام دیگر مذاہب کے احترام کا قائل ہے تاہم دوستانہ رابطوں کو تقوی اور ایمان سے مشروط کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں کافی آیات ہیں کہ مسلمانوں کے غیروں کے تسلط میں جانے سے منع کیا گیا ہے، رب العزت خبردار کرتا ہے کہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی سمیت تمام شعبوں میں خودمختاری حفظ کو برقرار رکھا جائے تاہم عزت و احترام کے لیے دشمنوں سے مدد نہ لینے کا حکم ہے۔ ایک آیت میں منع کا لفظ کہا گیا ہے یعنی مسلمانوں پر کسی قسم کا تسلط نہ ہو چاہے کسی میدان میں۔
«... وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا: خدا نے کافروں کو مسلمانوں پر تسلط کا راستہ نہیں دیا ہے»(نساء، 141).
عبارت «و لن یجعل الله الکافرین علی المومنین سبیلا» آیت کے آخر میں نفی کی صورت میں تاکید ہے۔
اور اسلامی علما و ماہرین «لَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ» پر زور دیتا ہے گرچہ تعلیم اور تجربوں کے تبادلے میں مانع نہیں اور رسول اكرمصلي الله عليه و آله کی حدیث میں کہا گیا ہے: «اطلبوا العلم ولو بالصين». علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑے. [وسائل الشيعه، ج ۲۷، ص ۲۷. ]. چین کا اشارہ استعارہ ہے مختلف ثقافت اور دوری کا ، اسی طرح ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے کہ جو کافر قیدی دس مسلمان کو تعلیم دے تو اسے آزاد کرونگا، معصومین کے دور میں بھی معاملات ہوتے تھے۔
محسن قرائتی تفسیر نور، میں اس بارے میں فرماتے ہیں: قرآن مسلمانوں کی فتح کو کلمه «فتح» اور کفار کی کامیابی کو کلمہ «نصیب» سے یاد کرتا ہے اور اسکی وجہ غالبا یہ ہے کہ کفار کی فتح عارضی ہے جب حقیقی فتح مسلمانوں کی ہوگی۔
تفسیر نور میں آس آیت کے حوالے سے درج ذیل نکات بیان کیا گیا ہے: