ایکنا نیوز کے مطابق معاشرے میں ضرورت مندوں کی مدد اہم اخلاقی فریضہ ہے کو مخیر حضرات انجام دیتے رہتے ہیں تاہم اگر اس کام کو شرایط کے ساتھ نہ کیا جایے تو نہ صرف اس کا مثبت کردار ظاہر نہیں ہوتا بلکہ آخرت میں بھی اس کے اجر مشکوک بن جاتا ہے قرآن اس بارے سورہ بقرہ میں فرماتا ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ؛
اے ایمان لانے والو! اپنے انفاق کو منت جتا کر باطل مت کرو! ان لوگوں کی طرح جو اپنے اموال کو دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور خدا و قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کا کام ایک پتھر کی طرح ہے جس پر مٹی کی تہہ چڑھی ہے اور باران اس پر پڑے اور سب کچھ صاف کرجائے اور خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا»(بقره،۲۶۴).
تفسیر نمونه میں تاکید کی گیی ہے کہ با ایمان افراد کو منت جتا کر انفاق کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور قرآن دو مثال سے اس چیز کے ضائع ہونے کا واضح کرتا ہے۔
«یہ لوگ دکھاوے کو مال کو خرچ کرتا ہے یہ خدا اور روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتا».
دوسری مثال میں کہتا ہے: «(اسکا کام) اس پتھر کی طرح ہے جس پر مٹی کی تہہ چڑھی ہو اور کچھ اگے مگر بارش سب کچھ ختم کرکے صاف کردے اور انکو کچھ ہاتھ نہ آئے».
اس طرح سے ریاکاری کے ساتھ کام اور منت جتا کر اس کام کو کرتا ہے جس کا سرچشمہ سخت دل ہے اور انکے صاحب ان کاموں سے فایدہ نہیں اٹھاتا اور انکی تمام زحمت ضائع ہوجاتی ہے۔